کشکول ایپ کا اپ ڈیٹ جاری

کشکول ایپ کا اپ ڈیٹ جاری
2 اکتوبر 2020

زیر نظر اپ ڈیٹ میں جو چیزیں دی گئی ہے وہ درج ذیل ہیں

قبلہ نما: اوقات نماز کے بعد اب قبلہ نما بھی ایپ میں شامل کردیا گیا ہے

ویجیٹ نئے رنگ و روپ میں: ویجیٹ یا عوامی نام گول گھڑی کے ڈیزائن میں تبدیلی کی گئی ہے، اب گھڑی بڑی کرنے سے وقت بھی بڑا ہوتا ہے، گھڑی کے کونے میں ہرے رنگ کا چھوٹا بڑا ہوتا ایک دائرہ بھی دیا گیا ہے، اس ہرے رنگ سے اجمالا اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ اگلی نماز میں کتنا وقت باقی ہے مناجات مقبول: مناجات مقبول کی ساتوں منزلیں بھی مع ترجمہ ایپ کی زینت بنائی گئی ہیں

❹ جمعہ، عیدین اور نکاح کے خطبے: یہ خطبات جو پہلے روز مرہ کی دعاؤں کے اندر رکھے گئے تھے اس اپ ڈیٹ میں ان خطبوں کیلیے فہرست میں الگ سے ایک ٹیب بنا دیا گیا ہے

❺ چہل درود، چہل ربنا اور چہل استغفار: ان تین طرح کے چہل کیلیے بھی فہرست میں الگ سے ایک ٹیب / بٹن بنا دیا گیا
تھیم رنگ تبدیل: ایپلیکیشن کا تھیم رنگ اور لوگو بھی تبدیل کیا گیا ہے، نیلے سے ہرا، جس کے باعث قمری/اسلامی تاریخیں شمسی/ انگریزی تاریخوں سے مزید علاحدہ ہوگئی ہیں

کشکول اردو ایپ کا لنک⬇

https://play.google.com/store/apps/details?id=com.arshad.rahihijaziurducalender

کشکول اردو کا اپ ڈیٹ جاری

کشکول ایپ کا اپ ڈیٹ جاری
2 اکتوبر 2020

زیر نظر اپ ڈیٹ میں جو چیزیں دی گئی ہے وہ درج ذیل ہیں

❶ قبلہ نما: اوقات نماز کے بعد اب قبلہ نما بھی ایپ میں شامل کردیا گیا ہے
❷ گول ویجیٹ یا عوامی نام گول گھڑی کے ڈیزائن میں تبدیلی کی گئی ہے، اب گھڑی بڑی کرنے سے وقت بھی بڑا ہوتا ہے، گھڑی کے کونے میں ہرے رنگ کا چھوٹا بڑا ہوتا دائرہ بھی دیا گیا ہے، اس ہرے رنگ سے اجمالا اس بات کا چلتا ہے کہ اگلی نماز میں کتنا وقت باقی ہے

❸ مناجات مقبول: مناجات مقبول کی ساتوں منزلیں بھی مع ترجمہ ایپ کی زینت بنائی گئی ہیں

❹ جمعہ، عیدین اور نکاح کے خطبے؛ جو پہلے روز مرہ کی دعاؤں کے ذیل میں رکھے گئے تھے اس اپ ڈیٹ میں ان خطبوں کیلیے فہرست میں الگ سے ایک ٹیب بنا دیا گیا ہے

❺ چہل درود، چہل ربنا اور چہل استغفار کیلیے بھی فہرست میں الگ سے ایک ٹیب / بٹن بنا دیا گیا ہے

❺ تھیم رنگ تبدیل: ایپلیکیشن کا تھیم رنگ اور لوگو بھی تبدیل کیا گیا ہے، نیلے سے ہرا، جس کے باعث قمری/اسلامی تاریخیں شمسی/ انگریزی تاریخوں سے مزید علاحدہ ہوگئی ہیں

تحریر میں رموز اوقاف کی اہمیت

تحریر میں رموز اوقاف کی اہمیت و ضرورت

از: فاروق اعظم عاجز کھگڑیاوی‏، شعبہ انگریزی، دارالعلوم دیوبند

انسان جب آپس میں گفتگو کرتاہے، تو اس کے مختلف اسلوب و انداز ہوتے ہیں، بات کبھی مثبت ہوتی ہے، تو کبھی منفی، کوئی لمحہ غم کا ہوتاہے، تو کوئی خوشی کا، لہجہ کبھی سخت ہوتا ہے، تو کبھی نرم، کوئی بات اسے تعجب میں ڈالتی ہے، تو کبھی اسے خوف کا سامنا کرنا پڑتا ہے. غرض کہ روز مرہ میں نرمی، سختی، خوشی، غم، تعجب، استفہام، خوف، غصہ. اس طرح کے نشیب و فراز اور اتار چڑھاؤ پائے جاتے ہیں اور یہی حال قلم کابھی ہے، اس لیے کہ قلم بھی انسان کی خاموش زبان ہے اور زبان کے زریعے سے نکلنے والے دلی احساسات وجذبات کا ترجمان بھی۔
انسان جہاں اپنی گفتگو کوموٴثر بنانے کے لیے اس کے آداب کی مکمل رعایت کرتاہے، وہیں اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ زبان کے ساتھ اپنے قلم سے نکلی ہوئی تحریر میں بھی اسے ملحوظ رکھے، اس لیے کہ ایک قلم کار اپنی تحریر کے ذریعے دنیا کو عظیم پیغام دیتاہے اور اپنے طبقے کو ترقیات کے بامِ عروج پر دیکھنے کا خواہاں ہوتا ہے اور یہ اس وقت تک ناممکن ہے، جب تک کہ آلہ کو آلہ کے اصول کے مطابق نہ چلایا جائے، یعنی قلم بھی ایک آلہ ہے، بل کہ ابلاغ کا ایک موٴثر ذریعہ ہے اور اس کے بھی کچھ اصول و ضوابط ہیں جن کی رعایت ناگزیر ہے. یہی وجہ ہے کہ ہر نبی اپنے زمانہ کا سب سے بڑا فصیح وبلیغ ہوا کرتا تھا جس کی شہادت قرآن میں صراحتاً موجود ہے۔
قلم کے مسافر کے لیے جس طرح دیگر اصول وضوابط کی ہم رکابی ضروری ہے، اسی طرح اپنی تحریر میں ”رموز اوقاف“ کا توشہ بھی ناگزیر ہے اور نہ صرف رموز اوقاف کی محض معلومات بل کہ ان کا برمحل استعمال مقصود ہے۔
آج ایک طبقہ تو شاید ”رموز اوقاف“ کے رموز سے واقف ہی نہیں اور اگر ہے بھی، تو ان کی رعایت ”آٹے میں نمک“ کے برابر ہے. ہاں ادبی تحریروں میں تو ان کی رعایت کی جاتی ہے، لیکن رموز اوقاف کا تعلق محض ادبی تحریروں ہی سے نہیں ہے بل کہ مطلق اس کا تعلق کسی زبان کے تحریری مواد سے ہے۔
اسی جذبے کے پیش نظر رموز اوقاف سے متعلق مختلف کتابوں۔ بطور خاص بابائے اردو مولوی عبدالحق صاحب کی معروف کتاب ”قواعد اردو“ کو سامنے رکھ کر چند باتیں سپرد قرطاس کی جاتی ہیں۔
تحریروں میں استعمال ہونے والی علامات اور اس کے نام:
(۱) سکتہ (،) (۲) وقفہ (؛)
(۳) رابطہ (:) (۴) تفصلیہ (:-)
(۵) ختمہ (۔/․) (۶) سوالیہ (؟/?)
(۷) مجائیہ،ندائیہ (!) (۸) قوسین (( )/())
(۹) خط (ـــــــ) (۱۰) واوین (” “)
سکتہ(،)
ان چھوٹے چھوٹے جملوں کے درمیان اس کا استعمال ہوتا ہے جن سے مل کر ایک بڑا جملہ بنتا ہے اورایک بات مکمل ہوجاتی ہے۔ جیسے:-
استاذ محترم آئے، درس گاہ میں داخل ہوئے، کرسی پر بیٹھے اور سبق پڑھایا۔
مختلف اسما کو جوڑنے کے لیے بطور حرف عطف کے بھی استعمال ہوتا ہے، خواہ وہ معطوف معطوف علیہ ہوں۔ جیسے:-
حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت علی ایک ہی شمع کے چار پروانے تھے۔
یا اسم مصدر ہوں۔ جیسے:-
لڑنا، جھگڑنا اور گالی دینا بری بات ہے۔
یا ایک موصوف کی کئی صفتیں ہیں، تو متعدد صفات کے درمیان اس علامت کو لائیں گے۔ جیسے:
عادل ذہین، محنتی، با ادب اور خوش خلق طالب علم ہے۔
اسی طرح کئی منادیٰ ہوں، تو ان کے درمیان میں بھی اسے لایا جاتا ہے۔ جیسے:-
میرے بھائیو!، بزرگو! اور دوستو!
ایسے ہی شرط وجزا اور صلہ وموصول کے درمیان اس کا استعمال ہوتا ہے۔ جیسے:-
جب حق آیا، تو باطل خود بخود چھٹ گیا۔ انسان وہ ہے ، جس کے اندر انسانیت ہو۔
اسی طرح اسے مستثنیٰ مستثنیٰ منہ کے درمیان بھی لایا جاتا ہے۔ جیسے:-
آج کا دور، ترقیاتی دور کہلاتا ہے، لیکن سکون مفقود ہے۔ انگریز ہندوستان سے تو گئے، مگر دو ٹکڑے کرکے۔
درس گاہ پابندی سے آؤ، پر موبائل نہ لاؤ۔
مبتدا اور خبر کے درمیان میں جب موصوف اور صفت کا اشتباہ ہونے لگے، تو اس وقت سکتہ کا لانا ضروری ہے۔مثلاً: اردو زبان میں سیرت کی سب سے شاہ کار کتاب، سیرت النبی ﷺ ہے۔
ہندوستان کے اسلامی مصنّفین میں ایک نمایاں نام، مولانا مناظراحسن گیلانی کا بھی ہے۔
وقفہ(؛)
اس کا استعمال جملوں کے بڑے بڑے اجزا کے درمیان ہوتا ہے، جہاں سکتہ کے (،) بالمقابل زیادہ ٹھہراؤ کی گنجائش ہو۔جیسے:
”سرخیاں بنانے کے طریقے؛ سرخیوں کی قسموں؛ ان کے لیے مطلوبہ صلاحیتوں؛ اخبار کی زینت کاری وغیرہ کے مسائل کو اس طرح بیان کیا ہے کہ قاری کو کسی خشکی کا احساس نہیں ہوتا۔“
اسی طرح جملوں میں ”ورنہ“، ”اس لیے“، ”لہٰذا“، ”اگرچہ“، ”لیکن“ وغیرہ جیسے ربط دینے والے الفاظ سے پہلے وقفہ کی علامت ہوگی۔ جیسے:
مشک کی تعریف کرنا خود اپنی قیمت کو بڑھانا ہے؛ ورنہ مشک تعریف وتوصیف سے اعلیٰ اور کہیں برتر وبالا ہوتا ہے۔
مستقل مزاجی سے تھوڑا کام بھی بہتر ہے اس کام سے جو مستقل مزاجی سے نہ ہو؛ اس لیے کسی بھی فن میں کمال پیدا کرنے کے لیے استقلال ضروری ہے۔
ادب و احترام، پابندی وقت انسان کو آگے بڑھانے والی چیزیں ہیں؛ لہٰذا: ادب کے ساتھ وقت کی انمول دولت کی حفاظت کرو!
محنت اور جدوجہد کو نہ چھوڑو؛ اگرچہ بھوک کی تکلیف برداشت کرنا پڑے اور رات کی نیند قربان کرنا پڑے۔
دنیا روشن پیدا کی گئی ہے؛ لیکن یہی روشنی کبھی تاریکی میں بھی تبدیل ہوجاتی ہے۔
رابطہ (:)
مقولہ یا کہاوت وغیرہ کو بیان کرنے کے لیے اسے استعمال کیاجاتا ہے۔ جیسے:
علامہ اقبال نے کہا:
”دیوبندی نہ فرقہ ہے نہ مذہب، ہر معقول پسند، دین دارآدمی کا نام دیوبندی ہے“۔
سچ ہے:
”وقت ایک ان مول سرمایہ ہے“۔
کہتے ہیں:
”زبان شیریں ملک گیری“۔
تفصلیہ (:-)
کسی لمبے اقتباس یا کسی فہرست کو پیش کرتے وقت اس کا استعمال ہوتا ہے۔ اس کا استعمال اب متروک سا ہوگیا ہے ؛ لیکن پرانی تحریروں میں اس کا استعمال کثرت سے دیکھنے کو ملتا ہے۔ جیسے:
ہمارے ملک میں مختلف مذاہب کے ماننے والے رہتے ہیں:- مسلمان، ہندو، سکھ اور عیسائی وغیرہ۔
اسی طرح جملوں میں ”خلاصہ کلام یہ ہے“، ”مختصر کلام یہ ہے“، ”غرض کہ“ کی جگہ بھی یہ کام آتا ہے۔ جیسے: ہندوستان میں مسلمان آئے، یہاں کی زمین ہموار کی، خونِ جگر سے اسے سینچا، بے شمار خوب صورت عمارتیں تعمیرکرائیں:- آج بھی بڑے بڑے فن کار محوِحیرت ہیں۔ ایسے ہی ”مثلاً“ یا ”جیسے“ کی جگہ بھی اس کا استعمال ہوتا ہے۔ جیسے:
صرف علم ہی کار آمد نہیں ہے:- ابلیس ہی کو لے لیجیے! ختمہ (۔/․)
اس علامت کو وقف تام بھی کہا جاتاہے۔ اس کا استعمال بات یا جملہ کے مکمل ہوجانے پر کیا جاتا ہے۔ جیسے:
مذہبِ اسلام امن عالم کا عَلَم بردار ہے۔ ہندستان گنگا جمنی تہذیب کا عظیم گہوارہ ہے۔
نوٹ: (۔)
یہ علامت عام طور پر اردو زبان میں مستعمل ہے؛ لیکن عربی و انگریزی زبان میں (․) اس علامت کو استعمال کیا جاتا ہے۔
واوین (” “)
کسی مضمون میں موضوع کی مناسبت سے بعینہ کسی مصنف و ادیب کے قول یا کسی کتاب کے اقتباس کو نقل کرتے وقت اس کا استعمال ہوتا ہے۔ جیسے:
”شورش لکھتے ہیں:
ایک نورانی جزیرہ ہے، جس میں فضیلتوں کے آبشار بہ رہے ہیں، احد سونے کا پہاڑ ہے، اس کے دامن میں شہدا کی جھیل ہے، اس جھیل میں چاندی کا پانی بہ رہا ہے اور سونے کی موجیں اچھل رہی ہیں۔“
ٹیپو سلطان فرماتے ہیں:
”گیدڑ کی سوسالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے۔“
اسی طرح جملوں کے درمیان میں، اہمیت کے پیش نظر، کسی خاص نام و مقام کو بھی واوین میں لکھاجاتا ہے۔ جیسے:
”عصری علوم سے مسلمانوں کو آراستہ کرنے میں ”سرسید احمد خاں“ کا اہم کردار رہا ہے، جو ”علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی“ کی شکل میں آج ”ہندستان“ میں قائم ہے“۔
فجائیہ وندائیہ (!)
کسی خاص کیفیت اور جذبے کے اظہار کے وقت یہ علامت لگائی جاتی ہے۔ جیسے:
حیرت، خوف، غصہ اور حقارت وغیرہ کے وقت اس کا استعمال ہوتا ہے، ایسے ہی جذبے کی شدت میں کمی و بیشی کے اعتبار سے ایک سے زیادہ علامتوں کا استعمال بھی ہوتا ہے۔جیسے:
سبحان اللہ!
بہت خوب!
معاذ اللہ!
اللہ پناہ!
خبرلیتاہوں!
بس کرو!
رہنے دو!!
فرقہ واریت اور ملک کی ترقی!!! محال ہے.
ندائیہ:(!)
خطاب کے وقت اسی علامت کو ندائیہ کہا جاتاہے۔ جیسے: بچو! محنت، مشقت، ادب اور وقت کی قدر تمھیں ستاروں سے آگے پہنچاسکتی ہے۔
سہیلیو! آنکھیں ترسیں گی ساری عمر ساتھ کی جھولا جھولنے والیوں کو، دل ڈھونڈے گا زندگی بھر پاس بیٹھ بیٹھ کر اور لیٹ لیٹ کر کہانی سننے والیوں کو!۔
سوالیہ (؟/?)
کچھ پوچھنے یا دریافت کرنے کے وقت اس علامت کا استعمال ہوتا ہے۔
نوٹ:
داہنی طرف سے لکھی جانے والی زبانوں میں اس کی علامت اس طرح (؟) ہوگی۔ جیسے:
عربی، فارسی اور اردو وغیرہ.
اور بائیں طرف سے لکھی جانے والی زبانوں میں اس طرح (?) مثلاً:
آپ کا نام کیا ہے؟
تقریر میں عطاء اللہ شاہ بخاری اور تحریر عبدالماجد دریا آبادی بننا چاہتے ہیں؟
عقابی روح آپ کے اندر بے دار ہے؟
کبھی آپ نے سوچا؟ کہ آپ کی منزل آسمانوں میں ہے؟۔
خط ()
جملہ معترضہ کے لیے اسے کام میں لایا جاتا ہے ۔جیسے:
جگن ناتھ آزاد اور فراق گورکھپوری کا کہنا ہے- اگرچہ ان کی اپنی رائے ہے کہ علامہ اقبال شاعر اسلام نہیں؛ بل کہ شاعر اعظم تھے۔
قوسین (( ))
اس کا کام بھی تقریباً وہی ہے، جو خط کا ہے؛ ہاں کسی غیرمانوس لفظ کی وضاحت کے لیے عام طور پر قوسین ہی کااستعمال ہوتا ہے۔ جیسے:
وہ ”انار“ (دارالعلوم دیوبند) استعماریت سے آزادی کی جنگ کا اعلان بھی تھا اور اپنے قومی مذہبی، تہذیبی تشخص کی بقا کی جدوجہد کا آغاز بھی۔
عبدالرحمان (صدر سجاد لائبریری دارالعلوم دیوبند) ذہین وفطین، محنتی اورانتہائی فعال شخص ہے.
نقطے (․․․․․)
کسی محذوف عبارت کی جگہ اس کا استعمال ہوتا ہے؛ یعنی کسی لمبی عبارت کو نقل کرتے وقت، اختصار کے پیش نظر عبارت کا کچھ حصہ نقل کرتے ہیں اور بقیہ عبارت کی جگہ ان نقطوں کا استعمال کرتے ہیں. عام طور پر قلتِ جگہ یا قلتِ وقت کی بنا پر ایسا کیا جاتا ہے۔ جیسے:
اردو شعراء کے مشہور تذکرہ نویس ”محمدحسین آزاد“ نے ”ولی دکنی“ کو شعراء کا ”باوا آدم“ کہا ہے اور ․․․․․
اسی طرح جب کسی شعر وغیرہ کو مضمون کی سرخی بنانا ہو اور مقصد صرف آدھے مصرع ہی سے پورا ہورہا ہو، تو بھی نقطے کا استعمال کرتے ہیں. ہاں اگر مصرع کے جزو اول کو لینا ہے، تو جزو آخر کی جگہ نقطے لگائیں گے اور جزو آخر کو لینا ہو، تو جزواوّل کی جگہ اس کا استعمال ہوگا۔ جیسے:
ع- ․․․․․․لوح وقلم تیرے ہیں۔
ع- من اپنا پرانا پاپی ہے․․․․․․
چند علامات اور جن کاتحریروں میں کثرت سے استعمال ہے۔
(۱) ؎ علامت شعر وہندسہ (۲) ع علامت مصر
(۳) ؔ تخلص (۴) ۔ علامت ہندسہ.
(۵) // علامت ایضاً (بھی)
(۶) ۱۲ بات ختم ہونے کی علامت
(۷) / تاریخ یااعداد شمار کے اختتام پر
(۸) ص، ص صفحہ کا مخفف
(۹) ج جلد کا مخفف (۱۰) ق م قبل مسیح کا مخفف
(۱۱) م متوفی کا مخفف
(۱۲) ف فوت کا مخفف
(۱۳) ر (وفات) رخصت کا مخفف
(۱۴) پ پیدائش کا مخفف
(۱۵) ء عیسوی کا مخفف
(۱۶) ھ ہجری کا مخفف
(۱۷) الخ الیٰ آخرہ کا مخفف
(۱۸) اہ انتہی کا مخفف
(۱۹) وصلعم صلی اللہ علیہ وسلم کا مخفف (۲۰) عل علیہ السلام کا مخفف
(۲۱)  رضی اللہ عنہ کا مخفف
(۲۲)  رحمة اللہ علیہ کا مخفف
(۲۳) ج/ص جلد و صفحہ کا مخفف
رموز اوقاف کے متعلق یہ چند باتیں تھیں جو سپرد قلم کردی گئیں، اس سے پہلے بھی اس سلسلے کی بے شمار تحریریں آئی ہیں اورآئندہ بھی آتی رہیں گی؛ لیکن مقصداتنا ہے کہ ہم اپنی تحریروں میں ان کا لحاظ کرنے لگیں۔ تحریر کے لیے جہاں تحسین خط اور صفائی ستھرائی ضروری ہے، وہاں رموز اوقاف کی پابندی بھی انتہائی ناگزیر ہے؛ ایک قلم کار کی تحریر اپنی معنویت کے ساتھ ساتھ ظاہری خوبیوں سے بھی معمور ہو، تو پڑھنے والے کا ذہن و دماغ فطری طورپر متاثر ہوتا ہے اور وہ مصنف کی بات کو لیتا ہے، اس کے پیغام سے ملنے والے لعل وجواہر سے اپنا دامن دل بھرتا ہے؛ گویا لکھنے والا جس مقصد کے پیش نظر کچھ لکھتا ہے اس میں اسے بھرپور کامیابی ملتی ہے اور ایک قلم کے شہسوار کے لیے اس سے بڑھ کرکوئی فتح نہیں ہوسکتی۔

استاذ، شاگرد اور چَوَنِّی

مُلا احمد جیون ہندوستان کے مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر کے استاد تھے۔ اورنگ زیب اپنے استاد کا بہت احترام کرتے تھے۔ اور استاد بھی اپنے شاگرد پر فخر کرتے تھے۔ جب اورنگ زیب ہندوستان کے بادشاہ بنے تو انہوں نے اپنے غلام کے ذریعے استاد کو پیغام بھیجا کہ وہ کسی دن دہلی تشریف لائیں اور خدمت کا موقع دیں۔ اتفاق سے وہ رمضان کا مہینہ تھا اور مدرسہ کے طالب علموں کو بھی چھٹیاں تھی۔ چنانچہ انہوں نے دہلی کا رُخ کیا۔ استاد اور شاگرد کی ملاقات عصر کی نماز کے بعد دہلی کی جامع مسجد میں ہوئی۔ استاد کو اپنے ساتھ لے کر اورنگ زیب شاہی قلعے کی طرف چل پڑے۔ رمضان کا سارا مہینہ اورنگ زیب اور استاد نے اکھٹے گزارا۔ عید کی نماز اکھٹے ادا کرنے کے بعد مُلا جیون نے واپسی کا ارادہ ظاہر کیا۔ بادشاہ نے جیب سے ایک چونّی نکال کر اپنے استاد کو پیش کی۔ استاد نے بڑی خوشی سے نذرانہ قبول کیا اور گھر کی طرف چل پڑے۔ اس کے بعد اورنگ زیب دکن کی لڑائیوں میں اتنے مصروف ہوئے کہ چودہ سال تک دہلی آنا نصیب نہ ہوا۔ جب وہ واپس آئے تو وزیر اعظم نے بتایا۔ مُلا احمد جیون ایک بہت بڑے زمیندار بن چکے ہیں۔ اگر اجازت ہو تو اُن سے لگان وصول کیا جائے۔ یہ سن کر اورنگ زیب حیران رہ گئے کہ ایک غریب استاد کس طرح زمیندار بن سکتا ہے؟ انہوں نے استاد کو ایک خط لکھا اور ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ مُلا احمد جیون پہلے کی طرح رمضان کے مہینے میں تشریف لائے۔ اورنگزیب نے بڑی عزت کے ساتھ انہیں اپنے پاس ٹھرایا۔ مُلا احمد کا لباس بات چیت اور طور طریقے پہلے کی طرح سادہ تھے۔ اس لئے بادشاہ کو ان سے بڑا زمیندار بننے کے بارے میں پوچھنے کا حوصلہ نہ پاسکا۔ ایک دن مُلا صاحب خود کہنے لگے: آپ نے جو چونّی دی تھی وہ بڑی بابرکت تھی۔ میں نے اس سے بنولہ خرید کر کپاس کاشت کی، خدا نے اس میں اتنی برکت دی کہ چند سالوں میں سینکڑوں سے لاکھوں ہو گئے۔ اورنگ زیب یہ سن کرخوش ہوئے اور مُسکرانے لگے اور فرمایا: اگر اجازت ہو تو چونّی کی کہانی سناؤں۔ ملا صاحب نے کہا ضرور سنائیں۔ اورنگ زیب نے اپنے خادم کو حکم دیا کہ چاندنی چوک کے سیٹھ “اتم چند” کو فلاں تاریخ کے کھاتے کے ساتھ پیش کرو۔ سیٹھ اتم چند ایک معمولی بنیا تھا۔ اسے اورنگ زیب کے سامنے پیش کیا گیا تو وہ ڈر کے مارے کانپ رہا تھا۔ اورنگ زیب نے نرمی سے کہا: آگے آجاؤ اور بغیر کسی گھبراہٹ کے کھاتہ کھول کے خرچ کی تفصیل بیان کرو۔ سیٹھ اتم چند نے اپنا کھاتہ کھولا اور تاریخ اور خرچ کی تفصیل سنانے لگا۔ مُلا احمد جیون اور اورنگ زیب خاموشی سے سنتے رہے ایک جگہ آ کے سیٹھ رُک گیا۔ یہاں خرچ کے طور پر ایک چونّی درج تھی لیکن اس کے سامنے لینے والے کا نام نہیں تھا۔ اورنگ زیب نے نرمی سے پوچھا: ہاں بتاؤ یہ چونی کہاں گئی؟ اتم چند نے کھاتہ بند کیا اور کہنے لگا: اگر اجازت ہو تو درد بھری داستان عرض کروں؟ بادشاہ نے کہا: اجازت ہے۔ اس نے کہا: اے بادشاہِ وقت! ایک رات موسلادھار بارش ہوئی میرا مکان ٹپکنے لگا۔ مکان نیا نیا بنا تھا اور تما م کھاتے کی تفصیل بھی اسی مکان میں تھی۔ میں نے بڑی کوشش کی، لیکن چھت ٹپکتی رہی، میں نے باہر جھانکا تو ایک آدمی لالٹین کے نیچے کھڑا نظر آیا۔ میں نے مزدور خیال کرتے ہوئے پوچھا، اے بھائی مزدوری کرو گے؟ وہ بولا کیوں نہیں۔ وہ آدمی کام پر لگ گیا۔ اس نے تقریباً تین چار گھنٹے کام کیا، جب مکان ٹپکنا بند ہوگیا تو اس نے اندر آکر تمام سامان درست کیا۔ اتنے میں صبح کی اذان شروع ہو گئی۔ وہ کہنے لگا: سیٹھ صاحب! آپ کا کام مکمل ہو گیا مجھے اجازت دیجیے، میں نے اسے مزدوری دینے کی غرض سے جیب میں ہاتھ ڈالا تو ایک چونّی نکلی۔ میں نے اس سے کہا: اے بھائی! ابھی میرے پاس یہی چونّی ہے یہ لے، اور صبح دکان پر آنا تمہیں مزدوری مل جائے گی۔ وہ کہنے لگا یہی چونّی کافی ہے میں پھر حاضر نہیں ہوسکتا۔ میں نے اور میری بیوی نے اس کی بہت منتیں کیں۔ لیکن وہ نہ مانا اور کہنے لگا دیتے ہو تو یہ چونّی دے دو ورنہ رہنے دو۔ میں نے مجبور ہو کر چونّی دے دی اور وہ لے کر چلا گیا۔ اور اس کے بعد سے آج تک وہ نہ مل سکا۔ آج اس بات کو پندرہ برس بیت گئے۔ میرے دل نے مجھے بہت ملامت کی کہ اسے روپیہ نہ سہی اٹھنی دے دیتا۔ اس کے بعد اتم چند نے بادشاہ سے اجازت چاہی اور چلا گیا۔ بادشاہ نے مُلا صاحب سے کہا: یہ وہی چونّی ہے۔ کیونکہ میں اس رات بھیس بدل کر گیا تھا تا کہ رعایا کا حال معلوم کرسکوں۔ سو وہاں میں نے مزدور کے طور پر کام کیا۔ مُلا صاحب خوش ہو کر کہنے لگے۔مجھے پہلے ہی معلوم تھا کہ یہ چونّی میرے ہونہار شاگرد نے اپنی محنت سے کمائی ہوگی۔ اورنگ زیب نے کہا: ہاں واقعی‘ اصل بات یہ ہے کہ میں نے شاہی خزانہ سے اپنے لئے کبھی ایک پائی بھی نہیں لی۔ ہفتے میں دو دن ٹوپیاں بناتا ہوں۔ دو دن مزدوری کرتا ہوں۔ میں خوش ہوں کہ میری وجہ سے کسی ضرورت مند کی ضرورت پوری ہوئی یہ سب آپ کی دعاؤں کا نتیجہ ہے۔ اللہ پاک ہمیں بھی رزق حلال کمانے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین۔
بحوالہ: کتاب/تاریخِ اسلام کے دلچسپ واقعات

خلیفہ ہارون الرشید اور بہلول کا واقعہ

مغلوب الحال اور مجذوب کی حکمران کو نصیحت

خلیفہ ھارون الرشید حج کو جارھا تھا۔کوفہ سے گزر ھوا تو رستے میں بھلول پہ گزر ھوا۔

۔شاہی قافلہ گزر رھا تھا اور حضرت بھلول مٹی سے کھیل رھے تھے۔

پروٹوکول والے اَگے بڑھے انہیں مارکر بھگانے لگے۔

خلیفہ کا وزیر فضل بن ربیع انکو پہچانتا تھا،کہتا ھے میں نے جلدی سے بیچ میں پڑکر انکو بچایا اور انسے کہا چپ ھوجاو!!!

یہ دیکھو امیر المومنین اَرھے ہیں۔

جب خلیفہ کی سواری قریب اَئ تو بھلول کھڑے ھوے اور حدیث پڑھکر سنائ

کہ قدامہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ھے کہ میں نے منی میں حضور علیہ السلام کو ایک اونٹنی پہ سوار دیکھا،نا تو مار دھاڑ ھورہی تھی ناہی کسی کو دھکے دیے جارھے تھے ناہی ھٹو بچو کی صداییں تھیں۔

وزیر نے سوچا کہ کہیں بادشاہ یہ سنکر طیش میں نااَجاے فورا کہنے لگا اے امیر المومنین!یہ بیچارہ بھلول مجنون ھے!!

خلیفہ کہنے لگا ۔جانتا ھوں ۔

اے بہلول کچھ مختصر سی نصیحت کیجیے!

بہلول نے کہا حضور علیہ السلام کا ارشادِ گرامی ھے جسے اللہ پاک نے مال بھی دیا ھو اور جمال بھی! تو وہ اپنے جمال میں تو پاکباز رھا اور اپنے مال سے غرباء کی حاجت روائ کرتا رھا تو اسے اللہ کے ہان نیک لوگوں کے رجسٹر میں لکھ دیا جاتا ھے۔

خلیفہ سمجھا کہ بہلول پہ کچھ قرض ھوگا اسلیے یہ حدیث سنائ ھے۔کہا ھمنے حکم دیدیا ھے کہ تمہارا قرضہ اتار دیا جاے!

بہلول کہنے لگے مت کریں اے امیر المومنین!

یہ تو قرض اٹھاکر قرض اتارنا ھوا!!!

اصل کام تو یہ ھے کہ یہ مال جسکا حق ھے اسکو واپس لوٹاو!!

جو کچھ تمہارا خزانہ ھے یہ تو رعایا کے پیسے ہیں !! یہ سب تمہارے زمہ قرض ھے

خلیفہ نے کہا اچھا چلیں اَپکا وظیفہ مقرر کررھا ھوں۔

بھلول کہنے لگے۔ یہ بھی مت کریں!! اَپکا کیا خیال ھے؟ اللہ پاک نے اَپکا تو رزق جاری فرمایا ھے اور مجھے بھول گیے ہیں؟؟

جس خدا نے اَپکو رزق دیا ھے میرے مرنے کے دن تک وہی میرے رزق کا ذمہ دار ھے۔

کشکول ایپ اپ ڈیٹ|24 اپریل بروز جمعہ

کشکول ایپ کا اپ ڈیٹ جاری
24 اپریل بروز جمعہ

اس اپ ڈیٹ میں جو چیزیں دی گئی ہیں وہ درج ہیں:۔

قرآن کریم 16 لائن عکسی: سولہ سطری قرآن کریم کو بھی ایپ کی زینت بنا لیا گیا ہے، یہ سولہ سطری قرآن کریم یونی کوڈ میں نہیں ہے، کیونکہ اس سے پہلے جو قرآن کریم 15 لائن یونی کوڈ میں دیا گیا تھا اس پر قارئین کرام کی طرف سے تبصرے اور تجاویز موصول ہورہی تھیں کہ اس یونی کوڈ قرآن کو چَھپے ہوئے قرآن کے مطابق کیا جائے، چَھپے ہوئے قرآن کے مطابق یونی کوڈ قرآن کو کرنے میں بہت وقت اور محنت درکار ہے، اسے بعد کے وقت کیلیے ملتوی کردیا گیا ہے کہ قرآن کا مہینہ رمضان سامنے ہے۔ اس تناظر میں یہ قرآن کریم 16 لائن: عکسی شکل میں دیا گیا ہے، بالفاظ دیگر یونی کوڈ میں نہ ہو کر قارئین کی پسند کے مطابق تصاویر کی شکل میں دیا گیا ہے،چونکہ یہ قرآن کریم امیج کی شکل میں ہے اس لیے اسکا حجم یونی کوڈ قرآن کے مقابلے میں یقینا زیادہ ہوگا، جیسا کہ جاننے والوں پر یہ بات مخفی نہیں۔ یونی کوڈ پورا قرآن کریم 3 ایم بی میں تھا تو اِس عکسی قرآن کریم کا صرف ایک پارہ ہی 3 ایم میں ہے، پس جب نیٹ کی رفتار ٹھیک ٹھاک ہو تو ان پاروں کو ڈاؤنلوڈ کیا جانا چاہیے، جو پارہ ڈاؤنلوڈ ہوجائے گا اس کے سامنے صحیح کا نشان ہرے رنگ میں لگ جائے گا ۔ دیکھیں اسکرین شاٹ

اس طرح کے عکسی قرآن کریم 15 لائن اور 13 لائن والے بھی جلد ہی پیش کیے جائیں گے ان شاء اللہ

نوٹ: یہ عکسی قرآن ابھی ابتدائی درجے میں ہے، دیگر اوپشن جو اس میں شامل کیے جاسکتے ہوں گے رفتہ رفتہ انہیں ہم از خود شامل کر لیں گے ان شاء اللہ

دائمی جنتری: نمازوں کے اوقات میں دائمی جنتری کا ڈیٹا بھی تیار کر لیا گیا ہے، ہر شخص کو اسکی لوکیشن کے حساب سے پورے 12 مہینے کا ڈیٹا ہمہ وقت دکھتا رہے گا ۔۔۔۔ اسے دیکھنے کیلیے اوقات نماز میں جائیں گے، اور بالکل اوپر جو تصویر نظر آئے گی اس پر ٹچ کریں گے، دیکھیں اسکرین شاٹ

اپ ڈیٹ کیلیے ایپ کا لنک⬇

https://play.google.com/store/apps/details?id=com.arshad.rahihijaziurducalender

طالب علم کسے کہتے ہیں؟

امام بقی بن مخلد رحمہ اللہ پیادہ پا اندلس سے چلے بغداد کو کہ امام احمد بن حنبل سے ملونگا اور انسے علم سیکھونگا۔
بقی فرماتے ہیں کہ جب میں بغداد کے قریب پہنچا تو مجھے امام احمد پہ پڑی افتاد کا علم ھوا اور پتہ چلا کہ انہیں لوگوں سے ملنے سے،انہیں پڑھانے سے منع کردیا گیا ھے۔ مجھے یہ جانکر بیحد افسوس ھوا پس جب بغداد پہنچا تو اپنا سامان ایک کمرہ میں رکھا اور امام کا گھر ڈھونڈنے نکل پڑا لوگوں سے پوچھتا وہاں جاپہنچا دروازہ کھٹکھٹایا تو امام نے بنفس نفیس اَکر دروازہ کھولا میں نے کہا اے امام! مسافر بندہ ھوں حدیث نبوی کا طالب علم ہوں اور متبع سنت کا ھوں اور فقط اَپسے پڑھنے کو اتنی مسافت طے کر اَیا ھوں۔
امام نے فرمایا چپکے سے اندر چلےاَو کسی کی نگاہ تم پہ ناپڑے،پہر پوچھنے لگے کہ بھئ میں تو خود اَزمایش کا شکار ھوں پڑھانے درس دینے سے مجھے روک دیا گیا ھے تمہیں کیونکر پڑھا پاونگا؟
میں نے کہا کہ میں اجنبی بندہ ھوں اگر اَپکی اجازت ھوتو ھرروز فقیروں اورملنگوں کے لباس میں اَجایاکرونگا اَپکے دروازہ پہ کھڑا ھوکر صدقہ خیرات مانگ لیا کرونگا اَپ باھر اَکر مجھے پڑھادیا کیجیے چاھے یومیہ ایک حدیث ہی کیوں ناھو
بقی فرماتے ہیں کہ میں ھر دن اَجاتا تھا اور دروازہ پر کھڑا ھوکر اَواز لگاتا مولی رحم کرے ثواب کمالو!
امام احمد میرے لیے نکلتے مجھے راہداری میں بلالیتے دو تین یا کچھ زیادہ احادیث سناتے یھانتک کہ قریب تین سو حدیثوں کے میرے پاس جمع ھوگیں پہر اللہ پاک نے امام احمد پر سے ابتلاء کا دور ختم فرمادیا اور اَپکو شہرت نصیب ھوئ تو اسکے بعد جب میں امام کے پاس جایا کرتا اور وہ اپنے بڑے سے حلقہ میں براجمان ھوتے اور انکے گرد طلبہ حدیث مانند پروانوں کے گھیرا ڈالے ھوتے تو حضرت امام میرے لیے جگہ بنواتے مجھے خود سے قریب کرتے اور طلبہ سے کہتے کہ دیکھو! اسے کہتے ہیں طالبِ علم!!

پاسورڈ محفوظ کریں، محفوظ رہیں

🖋 راہی حجازی

اگر آپ موبائل کمپیوٹر کی سیٹنگ وغیرہ سے کچھ زیادہ مناسبت نہیں رکھتے، یا آپ ان جھنجھٹوں بکھیڑوں اور خرخشوں میں پڑنے کا وقت نہیں پاتے، آپ تو پڑھنے پڑھانے، تجارت کرنے یا اور مفید کاموں میں مصروف رہنے والے ہیں تو ایسے تمام لوگوں سے گزارش کرنا چاہوں گا کہ سوشل میڈیا پر درج کی ہوئی اپنی آئی ڈی اور پاسورڈ کو محفوظ رکھیں………. تفصیل اِس اجمال کی یہ ہے کہ جو آئی ڈی اور پاسورڈ آپ نے فیس بک، ٹوئٹر یا جی میل پر اکاؤنٹ بناتے وقت درج کیا ہے یا کروایا ہے اسے کاغذ/کاپی میں لکھ کر شناختی کارڈ اور پاسپورٹ والے تھیلے میں رکھیں ۔ ہو یہ رہا ہے کہ ہمارے کوئی کرم فرما پاسورڈ بھول جاتے ہیں تو پرسنل پر حکم فرماتے ہیں کہ راہی بھائی فیس بک کا پاسورڈ بھول گیا ہوں کیا کروں؟………. فیس بک کے تعلق سے تو پھر بھی کم استفسارات ہیں مگر ٹوئٹر کے تعلق سے کافی زیادہ ہیں کہ بھائی ٹوئٹر کا پاسورڈ بھول گیا ہوں کیا کروں؟ بعض کرم فرما اس سے بھی آگے جاکر سوال کرتے ہیں کہ راہی بھائی آئی ڈی بھول گیا ہوں کیا کروں؟ ………. بیشک ان سوالوں کے جوابات ہیں مگر چونکہ سامنے والے کو ان چیزوں سے مناسبت نہیں ہوتی یا کم ہوتی ہے، وہ اپنے اپنے شعبے کے ماہرین ہوتے ہیں، ان کی توانائیاں اُنہی کاموں میں صرف ہورہی ہوتی ہیں،انگلش میں بھی ہاتھ تھوڑا تنگ ہوتا ہے تو ایسے میں سمجھنا اور سمجھانا دونوں دشوار ہوجاتا ہے، بعض دفعہ دونوں فریق ہلکان ہوجاتے ہیں مگر مسئلہ پھر بھی نہیں سلجھتا، کافی وقت ان بیکار کی چیزوں میں ضائع ہوجاتا ہے۔ ان امور کے پیش نظر یہ ہیچ مدان و بے مایہ اور خُورد سال و تُنَک مایہ عاجزانہ گزارش کرنے کی جسارت کررہا ہے کہ آئی ڈی اور پاسورڈ کو کاغذ یا کاپی میں لکھ کر روایتی طریقے سے اپنے پاس محفوظ رکھا جائے………. اگر آپ کہیں کہ بجائے کاغذ یا کاپی کے ہم انہیں ٹیلی گرام و واٹس ایپ پر لکھ کر محفوظ کریں تو چلے گا؟؟ عرض کروں گا کہ نہیں میرے محترم! عافیت کی راہ اِسی میں نظر آتی ہے کہ کاغذ یا کاپی میں لکھ کر انہیں روایتی طریقہ پر محفوظ کیا جائے، ہاں اگر آپ کاغذ یا کاپی پر محفوظ کرنے کے ساتھ ساتھ ٹیلی گرام و واٹس ایپ پر بھی محفوظ کرنا چاہیں تو سونے پر سہاگہ! درج ذیل تین جگہوں کی بالخصوص آئی ڈی اور پاسورڈ محفوظ کیا جانا چاہیے:

❶ گوگل آئی ڈی/بالفاظ دیگر جی میل آئی ڈی
❷ فیس بک اکاؤنٹ میں درج آئی ڈی اور پاسورڈ
❸ ٹوئٹر اکاؤنٹ میں درج آئی ڈی اور پاسورڈ

مزید اور کہیں آپ نے اکاؤنٹ بنایا ہو تو اسے بھی لکھ لیا جائے خواہ ایضا ایضا کرکے لکھا جائے

بھکتوں کی نفرت پر مبنی ٹوئٹ پر عرب امارات کا رد عمل

وزیر اعظم کے “پسندیدہ” رکن پارلیمنٹ تیجسوی سوریہ نے طارق فتح کو ٹیگ کیا اور عرب خواتین پر بہت زیادہ اعتراضات کیے .. جس میں انہوں نے کہا “عربی خواتین سیکڑوں سالوں سے orgasmic نہیں ہیں” .. یہ ٹویٹ اور اس کی زبان اتنی ہے یہ امر خطرناک تھا کہ متحدہ عرب امارات کی سرگرم کارکن اور سیاست دان ، نور عرب ، سب سے پہلے اس ٹویٹ پر اعتراض کیا .. اور حیرت انگیز ٹیگ کیا ہے کہ “ہندوستان میں خواتین بہت اعلی عہدوں پر رہی ہیں ، لیکن آپ اپنی عزت اور وقار نہیں سکھائیں … اور اگر آپ کی حکومت آپ کو کبھی وزیر خارجہ کا عہدہ دیتی ہے تو ، اس بات کا خیال رکھنا کہ آپ کی عرب سرزمین لیکن آپ کا استقبال نہیں کیا جائے گا .. آپ کی نفرت یاد آئے گی ”

تیجسوی نے فوری طور پر ٹویٹ فوری طور پر دیا ، لیکن معاملہ جہاں گیا جہاں اسے معلوم تھا ، اور صورتحال یہ ہے کہ اس وقت ، متحدہ عرب امارات کے بڑے عہدیدار ، سیاست دان اور بڑے لوگ ہندوستان میں نفرت پھیلانے کے خلاف لکھنے میں مصروف ہیں .. وہاں مسلمانوں کے ساتھ کسی بھی طرح کے زیادتی پر مشتمل ویڈیو رکھی جارہی ہے

متحدہ عرب امارات کی شہزادی نے “سوربھ بھاردواج” کے کچھ ٹویٹس کا اسکرین شاٹ پوسٹ کیا جو متحدہ عرب امارات میں کاروبار کررہا ہے .. جس میں سورہب مسلمانوں کے لئے بہت گندی زبان استعمال کررہا تھا۔سوراب نے متحدہ عرب امارات میں ملٹی ملین کا کاروبار کیا ہے اور راجکماری کی ایکشن میرے آتے ہی پولیس حرکت میں آگئی۔سوراب نے فیس بک سے اپنے تمام ٹویٹر اکاؤنٹ بند کردیئے ہیں اور اپنی کمپنی کی ویب سائٹ بھی بند کردی ہے اوراب روپوش ہے۔ ذنس ایک جھٹکے میں چلا گیا .. اب UAE میں آباد ہر ہندوستانی کے نفرت پھیلانے والے اکاؤنٹ کو دوبارہ تعمیر کیا جا رہا ہے .. UAE میں چوتيس لاکھ سے اوپر بھارتی رہتے ہیں .. جو کہ وہاں کی کل آبادی کا ستائیس فیصد ہے

متحدہ عرب امارات کی راجکماری گاندھی کو ایک بت سمجھتی ہے اور جب ان کے ایک ٹویٹ پر کسی نے انہیں بتایا کہ گاندھی سیاستدان ہیں ، تو انہوں نے جواب دیا “نہیں ، وہ ایک سنت ہیں” .. شہزادی محبت پیار اور بھائی چارے کی تعلیم دے رہی ہے۔ یہاں کے آئی ٹی سیل والے ان کے ساتھ بدسلوکی کررہے ہیں .. جو اب خطرناک ہوتا جارہا ہے اور پوری متحدہ عرب امارات احتجاج میں اتررہا ہے .. پھر پی ایم او نے چارہ چارہ چارہ رکھنے کے لئے ٹویٹ کیا تھا۔ اور اسی ٹویٹ کو آج متحدہ عرب امارات میں ہندوستانی سفیر نے بھی ٹویٹ کیا ہے اور لوگوں سے بھائی چارے پیدا کرنے کی اپیل کی ہے .. یہ مالما اب ایک خطرناک مقام پر پہنچ رہا ہے۔

بی جے پی کے ترجمانوں سے لے کر وزراء ، بھیجنے والوں ، عقیدت مندوں اور کارکنوں تک ، عادت اتنی خراب ہوگئی ہے کہ انہیں لگتا ہے جیسے وہ اب اپنے ملک کی اقلیتوں سے کچھ بھی بولتے ہیں ، ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر ان کے ساتھ بدسلوکی کرتے ہیں ، صرف وہ سب کو گالیاں دیں گے اور وہ ہر ملک کے مسلمانوں کے ساتھ ایک ہی سلوک کریں گے .. مسلمانوں کے ساتھ ان کی نفرت ایک انتہائی خطرناک مرحلے پر پہنچ چکی ہے ، جس کا انہیں ابھی احساس ہوا ہے۔ مسٹر نہیں ہے .. پربامنڈل کی اس وبا کے درمیان میں یہ کھیل اب بہت آگے جانے والا ہے .. اور یہاں کا میڈیا اس پر بالکل خاموش ہے

تابش صدیقی

کیا ٹی وی چینلز تبلیغِ دین کا ذریعہ ہوسکتے ہیں؟

حضرت اقدس مولانا محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ کی زندگی کی آخری تقریر!

حضرت مولانا محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ اپنی زندگی کے آخری ایام میں اسلامی مشاورتی کونسل کے اجلاس میں شرکت کے لیے اسلام آباد تشریف لے گئے تھے )اسی سفر کے دوران آپ کی وفات ہوئی(… کونسل کے اجلاس کے موقع پر آپ کو سرکاری سطح پر ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر خطاب کی دعوت دی گئی… ریڈیو پر خطاب کی دعوت تو قبول فرمالی مگر ٹیلی ویژن پر خطاب کی دعوت رد کردی اس بارے میں حضرت مولانا محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ نے جو کچھ ارشاد فرمایا، اس کا خلاصہ یہ تھا:۔

” اس سلسلے میں ایک اصولی بات کہنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ ہم لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس بات کے مکلف نہیں ہیں کہ جس طرح بھی ممکن ہو لوگوں کو پکّا مسلمان بنا کر چھوڑیں… ہاں اس بات کے مکلف ضرور ہیں کہ تبلیغِ دین کے لیے جتنے جائز ذرائع و وسائل ہمارے بس میں ہیں ان کو اختیار کرکے اپنی پوری کوشش صرف کردیں… اسلام نے ہمیں جہاں تبلیغِ دین کا حکم دیا ہے، وہاں تبلیغ کے باوقار طریقے اور آداب بھی بتائے ہیں، ہم ان طریقوں اور آداب کے دائرہ میں رہ کر تبلیغ کے مکلف ہیں، اگر ان جائز ذرائع اور تبلیغ کے ان آداب کے ساتھ ہم اپنی تبلیغی کوششوں میں کامیاب ہوتے ہیں تو عین مراد ہے لیکن اگر بالفرض ان جائز ذرائع سے ہمیں مکمل کامیابی نہیں ہوتی تو ہم اس بات کے مکلف نہیں ہیں کہ ناجائز ذرائع اختیار کرکے لوگوں کو دین کی دعوت دیں اور آدابِ تبلیغ کو پس پشت ڈال کر جس جائز وناجائز طریقے سے ممکن ہو لوگوں کو اپنا ہم نوا بنانے کی کوشش کریں… اگر ہم جائز وسائل کے ذریعے اور آدابِ تبلیغ کے ساتھ ایک شخص کو بھی دین کا پابند بنا دیں گے تو ہماری تبلیغ کامیاب ہے اور اگر ناجائز ذرائع اختیار کرکے ہم سو آدمیوں کو بھی اپنا ہم نوا بنالیں تو اس کامیابی کی اللہ کے ہاں کوئی قیمت نہیں… کیوں کہ دین کے احکام کو پامال کرکے جو تبلیغ کی جائے گی وہ دین کی تبلیغ نہیں کسی اور چیز کی تبلیغ ہوگی!فلم (ٹی وی) اپنے مزاج کے لحاظ سے بذاتِ خود اسلام کے احکام کے خلاف ہے لہٰذا ہم اس کے ذریعے تبلیغِ دین کے مکلف نہیں ہیں… اگر کوئی شخص جائز اور باوقار طریقوں سے ہماری دعوت قبول کرتا ہے تو ہمارے دیدہ ودل اس کے لیے فرش راہ ہیں لیکن جو شخص فلم (مووی) دیکھے بغیر دین کی بات سننے کے لیے تیار نہ ہو، اسے فلم کے ذریعے دعوت دینے سے ہم معذور ہیں… اگر ہم یہ موقف اختیار کریں تو آج ہم لوگوں کے مزاج کی رعایت سے فلم کو تبلیغ کے لیے استعمال کریں گے کل بے حجاب خواتین کو اس مقصد کے لیے استعمال کیا جائے گا اور رقص وسرور کی محفلوں سے لوگوں کو دین کی طرف بلانے کی کوشش کی جائے گی۔ اس طرح ہم تبلیغ دین کے ایک اہم حکم کو پامال کرنے کے مرتکب ہوںگے۔‘‘مولانا کی یہ آخری تقریر تھی اور غور سے دیکھا جائے تو یہ دعوت دین کاکام کرنے والوں کے لیے مولانا کی آخری وصیت تھی جو لوح دل پر نقش کرنے کے لائق ہے۔”

( روایت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ۔ نقوشِ رفتگاں ص 105)